[ad_1]
سعادت حسن منٹو وہ نام ہے جو تعارف کا محتاج نہیں. ادبی حلقوں کے علاوہ ہر ذی شعور انسان اس نام سے بخوبی واقف ہے. منٹو کے چاہنے والے، اس سے دیوانہ وار محبت کرنے والے آج بھی موجود ہیں جو منٹو کی تحریریں پڑھتے ہیں. منٹو کا لکھا ہوا ہمارے معاشرے کے چند پست ذہنوں کے لیے قابل قبول نہیں مگر حقیقت تو یہی ہے کہ منٹو نے زمانے کی تلخیاں جھیل کر اپنے قلم کو محض حق گوئی کے لیے وقف کردیا. کوئی پوچھےکہ آپ کا پسندیدہ افسانہ نگار کون ہے؟ یا آپ کس سے متاثر ہیں؟ اور جواب یہ ہو کہ مجھے سعادت حسن منٹو کا طرزِ تحریر بہت پسند ہے منٹو کی تحریریں معاشرے کے سیاہ چہرے کی عکاسی کرتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ تم بے حیا ہو، اسے پڑھ کر فحاشی کی جانب راغب ہورہے ہو.معروف رائٹر و نقاد ڈاکٹر شفیق جالندھری اپنے مختصر مضمون ”منٹو۔۔۔ افسانے اور سچائیاں” میں لکھتے ہیں: ”وہ ایک ایسا معالج ہے جو صرف کھٹی میٹھی گولیوں سے ہی علاج نہیں کرتا، ضرورت محسوس ہونے پر نہایت بے تکلفی سے آپریشن بھی شروع کر دیتا ہے۔ اس کا آپریشن کچھ اِس انداز کا ہے کہ اس کے اچانک ہو جانے پر مریض حیران سے رہ جاتے ہیں۔ ذہنی طور پر آپریشن کے لئے پہلے سے آمادہ نہ ہونے کی بِنا پر بعض اوقات وہ گھبرا اور سٹپٹا بھی جاتے ہیں۔ ایسا اِس وقت ہوتا ہے جب منٹو جنس کے مسائل کو سامنے لاتا ہے۔ جنس کے متعلق اکثر لوگ بے حد شرمیلے ہوتے ہیں، بعض شرم کی بجائے احتیاط کو پیشِ نظر رکھتے ہیں، کچھ لوگ کھلے ڈلے ہوتے ہیں اور بعض فحش گوئی کو اپنا لیتے ہیں۔ منٹو ایک کھلا ڈلا انسان ہے جس پر فحاشی کا الزام لگتا ہے۔”
حق گوئی کا علم بلند کرنے والا ہمیشہ ذلت اٹھاتا ہے. سادہ لفظوں میں منٹو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک ہوتا رہا. منٹو کا نام شاید اس لیے لوگوں کو پسند نہیں آتا رہا. کیونکہ اُس نے نڈر اور بے باک ہونے کا ثبوت جابجا پیش کیا.لچھے دار باتیں کرکے معاشرے میں پھیلی بے حیائی کو اگر جدت کہہ دیا جائے تو کیا ممکن ہے کہ حقیقت سے منہ پھیرا جاسکے؟ ہمارے اردگرد ہر ایک اپنی ذات میں خود کو مکمل سمجھتا ہے.اپنی ذات کی نفی کرکے کسی دوسرے کے لیے خوش ہونا شاید یاد نہیں رہا،اگر یاد ہے بھی تو خود کا فائدہ…….میرے خیال میں معاشرتی برائیوں سے اب ہمارا تعلق نہیں رہا کیونکہ ہم مسلمانیت کے علمبردار ہیں. یہی بنیادی وجہ ہوسکتی ہے کہ طوائف کے کوٹھے، مجرے کے اڈے اور جسم فروشی کا خاتمہ ہوچکا ہے. زبانی کلامی سعادت حسن منٹو کا نام تو سب لیتے ہیں مگر منٹو کی طرح دلیری کا ثبوت کوئی فراہم نہیں کرتا. واہ واہ کرنے کی حد تک جملہ بازی خوب ہوتی ہے. جہاں عملی مظاہرہ کرنا ہو وہاں سکوت طاری ہوجاتاہے.منٹو اپنے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ “میری زندگی اک دیوار ہے جس کا پلستر میں اپنے ناخنوں سےکھرچتا رہتا ہوں۔ کبھی چاہتا ہوں کہ اس کی تمام اینٹیں پراگندہ کر دوں، کبھی یہ جی میں آتا ہے کہ اس ملبہ کے ڈھیر پراک نئی عمارت کھڑی کر دوں.”
کٹھن راستوں پر چلتے ہوئے میں آج کے منٹو کو ڈھونڈ رہی ہوں.جو نڈر ہو کر جینے کا شعور رکھتا ہو. خودداری اور خودمختاری پر کسی قیمت پر حرف نہ آنے دے.یہاں چند پیسوں کے عوض ایمان بک جاتے ہیں. اہم بات یہی ہے کہ ہماری خود اعتمادی ختم ہوچکی ہے. اپنے ضمیر کا سودا کرنے کے بعد ہاتھ میں کنکر ہی آتے ہیں.مجھے اس مقام پر حبیب جالب کے چند اشعار یاد آتے ہیں. انہوں نے کیا خوب کہا تھا:
میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا
اس دور منافقت میں ہمیں منٹو کے روپ میں اُس جرأتِ رندانہ کی ضرورت ہے جو منافقت کے رنگ سے پاک ہو۔ منٹو میں کڑوی سچائی کو دیکھنے، اسے پرکھنے اور یوں اس کے برملا اظہار کی جو جرأت تھی، آج وہی ہم میں نہیں رہی۔سعادت حسن منٹو ایک ایسے انسان تھے کہ جس سے نفرت بھی کی گئی اور محبت بھی۔ وہ ایک ایسا سرمایہ تھے کہ جس کی قدر بھی کی گئی اور ناقدری بھی۔ وہ ایک ایسے عظیم لکھاری تھے کہ ان کی بدزبانی پر پاکیزہ بیانی رشک کیا کرتی۔ امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا:
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منا فقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
مختصر مگر توجہ طلب موضوع یہی ہے کہ کیا ہم پھر منٹو کو دوبارہ دیکھ سکیں گے؟ دوبارہ دیکھنا اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ ظلم کو ظلم سرعام کہا جائے. ظلم کو سہہ کر ہمت نہ ہاری جائے بلکہ ہر شخص کم ازکم انصاف اور ناانصافی کے فرق کو بخوبی سمجھنا برتر اور کمتر کی تفریق کرنے والے سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنا جانتا ہوں.تب امکان ہے کہ آج کا سعادت حسن منٹو باآسانی مل سکے.
[ad_2]
Supply hyperlink
Usually I do not read article on blogs however I would like to say that this writeup very compelled me to take a look at and do it Your writing style has been amazed me Thank you very nice article