[ad_1]
پاکستان ہو یا ہندوستان، تقسیم کے بعد سے آج تک دونوں ممالک کچھ ایسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش نہیں کرسکے اور انہیں حل نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان میں ایک اہم ترین مسئلہ تعلیم کا وہ نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرے کو متاثر کررہا ہے۔ دونوں ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طلبا کس طرح تعلیمی نظام میں استحصالی قوتوں کا شکار ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی زندگی اور شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ ویب سیریز “کوٹا فیکٹری” اسی صورت حال کو بیان کرتی ہے اور اسے دیکھنے سے ہمیں انڈیا پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی نظام کی خرابیوں اور کمزوریوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
ویب سیریز “کوٹا فیکٹری” کا مرکزی خیال بہت اچھا ہے کہ کس طرح ناقص نظامِ تعلیم طلبا کی شخصیت کو تباہ کرتا ہے اور اس نظام میں تعلیم کا حصول زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے کس طرح ابتری کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کہانی میں راجستھان کے شہر “کوٹا” کو مرکز بنایا گیا ہے۔ ساری کہانی کا تانا بانا اسی کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ یہ شہر ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے پڑھے ہوئے طلبا کسی بھی بڑی جامعہ میں داخلہ لینے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ اب اس شہر میں کس طرح یہ ٹیوشن مافیا طلبا کو اپنی طرف راغب کرتا ہے، اس کھینچا تانی میں طلبا کا کیا حشر ہوتا ہے، اور جو یہ دوڑ نہیں جیت پاتے، وہ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر کن مسائل سے گزرتے ہیں، یہ کہانی ان کی اسی تکلیف اور خلش کو بیان کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اچھا استاد کیسے اپنے طلبا کے لیے مشعلِ راہ بنتا ہے، یہ کہانی اس مثبت اور سنہری پہلو کو بھی بخوبی بیان کرتی ہے۔
اس مرکزی خیال کے خالق اور اسکرپٹ نویس “تاموجیت داس” ہیں، اور اسے معروف انڈین پروڈیوسر “ارونابھ کمار” کی معاونت سے لکھا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ یہ مرکزی خیال ارونابھ کمار صاحب کا ہی ہے، جس کو انہوں نے تاموجیت داس کے حوالے کیا اورانہوں نے اس کی ڈرامائی تشکیل کی۔ ارونابھ کمار کی یہ کہانی اس لیے ذاتی لگتی ہے کیونکہ اس ویب سیریز میں جس تعلیمی ادارے “انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی” کا ذکر ہے کہ جس میں داخلے کے لیے طلبا ٹیوشن مافیا کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں، یہ صاحب اسی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے اس مرکزی خیال میں یقینی طور پر ذاتی تجربات شامل کیے ہوں گے جن کو اسکرپٹ رائٹر نے باکمال انداز میں لکھا ہے۔ مکالمے بہت جان دار اور کہانی کا تسلسل بہت مناسب اور عمدہ ہے۔
کوٹا فیکٹری کے اب تک تین سیزنز ریلیز کیے جا چکے ہیں۔ چوتھے سیزن کی بھی نوید ہے۔ ایک پرائیویٹ انڈین اسٹریمنگ پورٹل اور یو ٹیوب سے شروع ہونے والی اس ویب سیریز کو نیٹ فلیکس نے اچک لیا اور یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شہرت سمیٹ رہی ہے۔ اس کہانی کو بلیک اینڈ وائٹ تھیم میں عکس بند کیا گیا ہے، جس سے بیانیے میں مزید جان پڑ گئی اور بغیر کسی گلیمر کے اسکرپٹ میں کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ انداز بہت متاثر کن اور قابلِ تقلید ہے۔ اس ہندوستانی ویب سیریز کوٹا فیکٹری کے ہدایت کار راگھو سوبا اور پراتش مہتا ہیں۔
دونوں نے اچھے انداز سے اپنے کام کو نبھایا ہے، لیکن خاص طور پر پراتش مہتا جو کہ اس شعبے میں نئے ہیں، لیکن انہوں نے اب تک جتنا کام کیا ہے، اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح تعلیمی نظام پر بنی کہانیوں سے ہے، تو یہ اہم بات ہے کہ وہ اس موضوع پر ویب سیریز اور فلمیں بنانے والے ایک خاص ہدایت کار بنتے جا رہے ہیں۔ ویب سیریز میں دیگر شعبوں جن میں خاص طور پر کلر گریڈنگ، لائٹنگ، کاسٹیومز، لوکیشنز اور موسیقی، تمام شعبوں کا بہتر طریقے سے خیال رکھا گیا، تدوین اور پوسٹ پروڈکشن کے معاملات بھی اچھے سے نبھائے گئے، یہ پاکستانی شوبز، کانٹینٹ بنانے والے ادارے اور فلم سازوں کے لیے سبق ہے کہ اگر آپ کو اپنے موضوع اور کہانی پر گرفت ہو، تو آپ کو کمرشل دنیا میں بھی اتنی ہی توجہ ملے گی، جتنی کہ دیگر گلیمر پر مبنی سینما کو ملتی ہے۔
اس ویب سیریز کا یہ بھی خاصّہ ہے کہ کاسٹنگ کرتے وقت کرداروں کی نوعیت، ان کی عمروں اور ان کے ظاہری حلیے کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے ویب سیریز کوٹا فیکٹری حقیقت سے قریب تر محسوس ہوئی ہے۔ اس میں ایک بڑی تعداد کوچنگ سینٹرز کے طلبا کی ہے، جنہوں نے شوٹنگ میں حصہ لیا۔ ویب سیریز کے نوجوان اداکاروں میں جیتندر کمار(ٹیچر) اور احساس چنا(نمایاں طالبہ) میور مور(مرکزی طالب علم) رانجن راج (نمایاں طالب علم) عالم خان (نمایاں طالب علم) سمیت دیگر تمام اداکاروں نے اپنی اپنی جگہ اچھا کام کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کچھ مختصر کردار مشہور اداکاروں نے بھی نبھائے لیکن ان کو گلیمرائز نہیں کیا گیا بلکہ کہانی کی روانی میں وہ شامل ہوئے، ان کا کردار آیا اور چلا گیا۔ اس انداز نے ویب سیریز کو طلبا کی زندگی سے بہت قریب کر دیا اور اداکاروں نے اپنی اداکاری اور جان دار مکالمات کہ وجہ سے اسے بہترین بنا دیا۔
ویب سیریز کوٹا فیکٹری تعلیمی نظام کے اس تاریک پہلو کو بیان کرتی ہے جس میں طالب علموں کو تعلیم کے نام پر ایک دھندے کی نذر کردیا جاتا ہے، جہاں وہ کس طرح پہلے ٹیوشن اور کوچنگ مافیا کا شکار ہوتے ہیں، پھر ان نام نہاد معروف تعلیمی اداروں کا، جن میں انہیں داخلہ لینا ہوتا ہے، اور پھر اس کیریئر میں مشکلات سے گزرتے ہیں، جہاں وہ اتنی محنت کر کے پہنچے ہوتے ہیں۔ انڈیا ہو یا پاکستان، یہ درست ہے کہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم کے نام پر اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ اس نظام کو تبدیل ہونا چاہیے، یہ کب ہوگا، نہیں معلوم، مگر یہ تبدیلی ناگزیر ہے۔
[ad_2]
Supply hyperlink