المیہ ہے کہ ”آپریشن نیا پاکستان“ کے تحت اشرافیہ اور نو دولتیوں کی ایسی نسل پیدا کی گئی جو اپنے ملازمین اور ماتحتوں پر رحم کرتے ہیں نہ ہی قومی مفادات کا احساس، مال و دولت کے لیے جائز و جائز کی تفریق کیے بغیر ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہیں اور بھاشن شفافیت کے جھاڑتے ہیں۔ ڈی ایچ اے جیسی پوش آبادیوں میں ایسے چھوٹے سرکاری افسروں نے بھی ”دوسری رہائش“ رکھی ہوئی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر بھاری رشوت لیتے ہیں۔ کاغذات میں اپنی رہائش شہر کے عام علاقوں میں ظاہر کرتے ہیں مگر حرام کی کمائی پر پلنے والے اپنے بچوں کو مالدار علاقوں میں رکھ کر انہیں برہمن کلاس میں شامل کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اسٹلیشمنٹ نے تبدیلی کا جھکڑ چلایا تو یہ سب بھی پی ٹی آئی کے حامی بن گئے کیونکہ ایسا کرنا فیشن بنا دیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کی مہربانیوں سے پوری کی پوری اصل فیشن انڈسٹری کو پہلے پی ٹی آئی کا ہتھیار بنا کر مخالفوں کے خلاف میدان میں جھونک دیا گیا تھا۔ یوں اپنے ہاتھوں سے تراشا ”نیکی“ کا یہ مجسمہ ایسی کرم فرمائیوں کے باعث اس حد تک مقبول بنا دیا گیا کہ اب تک خود اپنے معماروں کے گلے پڑا ہوا ہے۔
چور بھی کہے چور چور
Leave a comment