[ad_1]
امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت یقینی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام سیاسی و غیر سیاسی رکاوٹوں اور سیاسی مخالفین کے تمام حربو ں یا کردار کشی یا سنگین نوعیت کے الزامات کے باوجود خود کو امریکی ووٹروں کے سامنے سرخرو کیا۔
حالانکہ بہت سے امریکی سیاسی پنڈت ان کے بارے میں کئی دفعہ سیاسی پیش گوئی کرچکے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب ماضی کی سیاست کا حصہ ہیں اور ان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ۔لیکن یہ تجزیہ کرتے وقت ان کے سیاسی مخالفین یا تجزیہ کار اس بنیادی نقطہ کوہی سمجھ نہیں سکے کہ پاپولر سیاست یا مقبولیت پر مبنی سیاسی یا عوامی حمایت کی موجودگی میں ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینا ممکن نہیں تھا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی سیاسی مخالف کملا ہیرس کی برتری اور مقبولیت کو امریکی میڈیا اور انتخابی پول سروے کے نتائج میں بڑھ چڑھ کر دکھایا گیا تاکہ یہ حکمت عملی کملا ہیرس کی سیاسی برتری کو یقینی بناسکے ۔ڈونلڈ ٹرمپ پرامریکی میڈیا میں شدید تنقید کی گئی اور اس نقطہ کو بار بار اجاگر کیا گیا کہ ٹرمپ کی جیت سے امریکا غیر مستحکم اور داخلی سیاست میں بڑی سیاسی تقسیم کا سبب بنے گالیکن ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے ہی امریکی میڈیا کے لیے منفرد نہیں تھے اور ان کی ساری توجہ کا مرکز روائتی میڈیا کے مقابلے میں ڈیجیٹل میڈیا تھا اور اسی حکمت عملی کے تحت وہ دوسری بار روائتی میڈیا کی تمام تر منفی حکمت عملیوں کے باوجود امریکی صدر منتخب ہوئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک روائتی سیاستدان بھی نہیں اور ان کے مختلف پہلووں پر سخت تنقید بھی کی جاسکتی ہے مگر جب کسی کے پاس عوامی حمایت ہو تو پھر اس کی سیاسی برتری یا اس کا سیاسی راستہ روکنا یا دیوار سے لگانا ممکن نہیں ہوتا ۔بہت سے امریکی ماہرین سمیت عالمی میڈیا پر ان کی فتح پر تنقید کی جارہی ہے اور کچھ لوگوں کے بقول امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت جمہوریت کی بلکہ پاپولرازم کی جیت ہے اور اس کا نقصان یقینی طور پر امریکا کی داخلی سیاست پر ہوگا۔ جمہوریت میں ہونے والے انتخابات کی بنیاد ہی پاپولر سیاست ہوتی ہے اور عوام میں جو مقبول ہویا جو زیادہ ووٹوں کی برتری حاصل کرے جیت اسی کی ہوتی ہے اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین جو پالیسی یا میڈیا کے محاذ پر ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
ان کو کملا ہیرس کی طرح اس شکست کو قبول کرنا چاہیے اور ووٹرز کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے اور ان کی رائے درست ہے یا غلط اس کا فیصلہ مستقبل میں امریکی داخلی سیاست ہی کرسکے گی ۔یہ بات بھی یاد رکھیں کہ کملا ہیرس نے کہیں بھی اپنی انتخابی مہم میں نہ تو بائیڈن حکومت پر یا ان کی جنگی پالیسیوں یا ڈیموکریٹس پر تنقید کی اور ان کی شکست کی بڑی وجہ بھی بائیڈن انتظامیہ اور اس کے سیاسی وجنگی فیصلے ہیں جن کی وجہ سے عرب دنیا، لبنان ، غزہ، فلسطین ،یوکرائن میں اسرائیلی جارحیت اور امریکی حکومت کی کھل کر حمایت تھی ۔
ایک طرف امریکا کی عرب دنیا پالیسی ، خارجہ پالیسی سے جڑے معاملات تو دوسری طرف شدید مہنگائی تھی جس کی وجہ سے بہت سے امریکی ووٹرز کو ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنا پڑی۔اسی طرح جب امریکی صدر بائیڈن اور ٹرمپ کے مخالفین نے ان کے حامیوں کے بارے میں سخت اور ناپسندیدہ الفاظ استعمال کیے یا ان کو کوڑے دان یا کوڑے کے طور پر پیش کیا یا ٹرمپ کی کردار کشی پر مبنی منفی مہم چلائی تو اسے بھی امریکی ووٹرز نے پسند نہیں کیا ۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں ایک بڑا عمل کمزور امریکی طبقات ، لوئر مڈل یا مڈل کلاس کی حمایت بھی تھی، جنگوں یا تنازعات سے تنگ امریکی کاورباری طبقات بھی تھے ۔ ٹرمپ نے بڑی کامیابی کے ساتھ یہ نقطہ پیش کیا کہ وہ امریکا کو جنگی ماحول ، جنگ فیصلوں یا جنگی سیاست سے باہر نکل کر معیشت میں ترقی کو بنیاد بنا کر ترقی کے نئے امکانات کو پیدا کریں گے ۔بنیادی طور پر ڈیموکریٹس اور امریکی میڈیا اس نقطہ کو سمجھنے میں ناکام رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کی کیا وجہ ہے۔
امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقبول نعرہ ’’امریکا کو دوبارہ عظیم ملک بنانا تھا ‘‘۔ اب وہ صدر منتخب ہوکر اس وعدے کوکس حد تک ممکن بناسکیں گے اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ان کا فوری طور پر بڑا امتحان امریکا کی مختلف جنگوں میں حمایت یا سرپرستی کا خاتمہ ، بالخصوص مشرقی وسطی اور یوکرائن کی جنگ کو ختم کرنا اور امریکا ایران،چین تعلقات ،افغانستان اور بھارت کے حالات میں امریکی کردارنمایاں ہوگا۔ کیا امریکی نومنتخب صدر کی اسرائیل پالیسی میں بڑا فرق دیکھنے کو مل سکے گا یا نہیں؟ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے بڑے حامی ہیںلہٰذا یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس طرح مشرق وسطی یا جنوبی ایشیا میں امن لانے کی کوشش کرتے ہیں؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے زیادہ تر امریکی حامی یا جنھوں نے ان کو ووٹ دیا ہے ان کی بڑی خواہش امریکا کی داخلی سیاست یا معیشت ہوگی کہ وہ اپنی توجہ داخلی مسائل پر دیں ۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے بارے میں پالیسی میں کچھ بنیادی تبدیلی اور خاص طور پر ان کی ٹیم میں جنوبی ایشیا کے تناظر میں نئی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی ۔
ویسے تو مجموعی طور پر امریکی پالیسی کسی فرد واحد کے گرد نہیں گھومتی بلکہ ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہوتی ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ عملی طور پر مضبوط صدر کے طور پر سامنے آئے ہیں اور سینیٹ میں بھی ان کو برتری حاصل ہے او راس بنیاد پر ان کویا ان کی اپنی سوچ اور پالیسی کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ویسے بھی بطور صدر ٹرمپ کی پالیسی ترجیحات میں پہلے داخلی سیاست اور اس کا استحکام سمیت اپنی مضبوط ٹیم کا چناؤ ہوگا۔
پاکستانی حکمران اور اسٹیبلیشمنٹ کی نظریں یقینی طور پر نئے امریکی صدر پر ہیں کیونکہ امریکا میں سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ ضرورتبدیل ہوتا ہے۔ پاکستان کے سامنے اس وقت پاک بھارت تعلقات ، کشمیر، افغانستان اور پاک چین تعلقات سمیت قومی محاذ پر دہشت گردی یا سیکیورٹی کے حالات ہیں۔
پاکستان امریکا کی نئی قیادت سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ان معاملات میں ہماری بھرپور سیاسی مدد کرے لیکن فوری طور پر ہمیں امریکا کے تناظرمیں کسی گرم جوشی یا بڑے فیصلے کی توقع نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنی ساری توجہ کی بنیاد داخلی سطح پر موجود مسائل کے حل سمیت سیاسی و معاشی استحکام ، سیکیورٹی کو یقینی بنانا اور سیاسی تقسیم یا سیاسی تنازعات کو ختم کرکے انسانی حقوق کی بہتری یا خود کو جمہوری سیاست کے ساتھ جوڑ کر ان معاملات پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس وقت پاکستان امریکا کا کوئی اسٹرٹیجک پارٹنر نہیں اور ویسے بھی دونوں ممالک میں اعتماد سازی کا بھی فقدان ہے ۔
امریکی دلچسپی اب ایشیا پیسفک کے خطہ پر ہے او ر اس خطہ میں چین کا بڑھتا ہوا کردار ہے ۔امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کا مرکز نہ بن پائے اور اس میں پاکستان اپنا کردار ادا کرے البتہ امریکا میں پاکستان کا چین کی طرف بڑھتا ہوا جھکاو یا رجحان پر تحفظات موجود ہیں اور بعض معاملات کو وہ شک کی نگاہ سے بھی دیکھتا ہے جب کہ پاکستان کو بھی اس وقت امریکا اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات پر تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کو نظرانداز نہیں کرسکیں گے اور دونوں کی ضرورتیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے حامیوں میں جوش وخروش ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے پر بانی پی ٹی آئی کو رہائی مل سکے گی ، معصومانہ خواہش ، سوچ یا رائے ہے ۔کیونکہ ریاستوں کے درمیان تعلقات شخصیات کے گرد نہیں بلکہ باہمی مفادات کے گرد گھومتے ہیں ۔ پاکستان کی حکومت میں بھی ایک ڈراور خوف موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کریں گے تو یہ کس حد تک ہوگی ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے کوئی براہ راست پالیسی نہیں ہوگی، اگر کچھ ہوگا تو وہ خاموش ڈپلومیسی کے طور پر ہوگا لیکن فوری طور پر کچھ ممکن نہیں ہوگا۔
[ad_2]
Supply hyperlink