[ad_1]
کثیر جماعتی سیاسی اتحاد المعروف پی ڈی ایم پر مشتمل حکومت سولہ ماہ بعد تحلیل کر دی گئی۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کیےاور یوں شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کا دورِ اقتدار ختم ہوا ۔ تاہم نگراں وزیراعظم کا اعلان ہونے تک شہباز شریف ہی اس منصب پر فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
اتحادی حکومت 13 جماعتوں پر مشتمل تھی جس کی بظاہر قیادت شہباز شریف نے کی اور ان کی حکومت نے کوئی قابلِ ذکر کام کیا یا نہیں، لیکن کچھ ریکارڈ ضرور بنائے اور توڑے بھی ہیں۔ اگر بات کریں حکومت اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کے بارے میں تو صرف شاہد خاقان عباسی کا حالیہ بیان ہی بہت کچھ عیاں کردے گا۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے اس مرکزی راہ نما نے اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل اسے پاکستان کی تاریخ کی بدترین پارلیمنٹ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ خدا کا شکر ہے آج اس اسمبلی سے نجات مل جائے گی۔ جب حکومتی اتحاد کی ایک بڑی جماعت کا اہم رکن یہ کہے تو 16 ماہ تک اس اتحادی حکومت نے جس قوم کے حال اور مستقبل کے فیصلے کیے ہوں، اس کے جذبات اور خیالات کیا ہوں گے، یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔
شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے اور اپوزیشن لیڈر بھی۔ بحیثیت وزیراعلیٰ وہ ایک اچھے منتظم رہے۔ اس عرصہ میں قوم نے ان کا جوشِ خطابت بھی دیکھا جس میں آئے روز وہ مائیک گراتے اور توڑتے رہے۔ وزیراعظم پاکستان بننے کے بعد شہباز شریف نے کچھ ایسا ہی کام ایک مختلف انداز میں کیا۔ بحیثیت وزیراعظم انھوں نے متعدد ریکارڈ بنائے اور چند سابق ریکارڈ توڑےہیں۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جسے ہم صرف پی ڈی ایم کہنےاور لکھنے پر اکتفاکرتے ہیں، اس کی اتحادی حکومت شاید دنیا کی واحد حکومت ہو جودو چارنہیں بلکہ 13 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھی اور اس میں ‘اِدھر اُدھر’ کی جماعتوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ کمزور ترین معیشت کے ساتھ حکومت سنبھال کر دنیا کی طویل ترین کابینہ بنانے کا ریکارڈ بھی شہباز شریف نے بنایا۔ ان کی کابینہ 83 اراکین پر مشتمل رہی جن پر نوازشات یوں کی جاتی رہیں کہ درجن سے زائد وزیر، مشیر بے محکمہ وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔ اسی حکومت میں مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر عوام کے ایک طبقے نے اس اتحادی حکومت سے جو امیدیں وابستہ کر لی تھیں وہ بھی ٹوٹ کر بکھر گئیں۔
پی ٹی آئی دور میں کمر توڑ مہنگائی پر عوام سے ہمدردی جتانے والی سیاسی جماعتیں اور اس مہنگائی کے خاتمے کا عزم کر کے آنے والی انہی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ سال اپریل میں جب اقتدار سنبھالا تو مہنگائی کا ایسا چاند چڑھا کہ عوام کو جیسے زندہ درگور ہی کر دیا۔ اس دور حکومت میں مہنگائی نے اپنے تمام سابق ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ ایسی جادوگر حکومت رہی کہ جیسے جیسے عوام پر شکنجہ کستا رہا ویسے ویسے ان پر مشکلات کی گرفت کمزور ہوتی رہی۔ یہ حکومت عملی طور پر ایک مشہور واشنگ پاؤڈر کا چلتا پھرتا اشتہار نظر آئی کہ جس میں داغ بھی اچھے اور جب وہ اس میں دھلیں تو غائب بھی ہوجائیں۔ انجام کار یہی ہوا کہ وہ لوگ جن پر اس حکومت کے قیام سے قبل فرد جرم عائد ہونے کے قریب تھی حکومت کے خاتمے تک لانڈری سے بے داغ ہو کر نکل گئے۔
عوام کو یہ حکمراں جہاں دیگر حوالوں سے یاد رہیں گے وہیں ایسے ناقابل عمل نعروں اور بیانات پر بھی شہباز شریف کو مدتوں یاد رکھا جائے گا جیسا کہ عوام کو اپنے کپڑے بیچ کر سستا آٹا دیں گے لیکن اس کے بعد آٹے نے وہ اڑان بھری کہ عوام کے کپڑے اتر گئے اور لوگ اس آٹے کو پانے کے لیے لمبی قطاروں میں لگ کر مرنے لگے۔
تحلیل کردہ حکومت نے اپنی پوری مدت کے دوران دنیا کے سامنے کاسۂ گدائی پھیلائے رکھا جس کا برملا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے ایک تقریب میں اپنے خطاب کے دوران ان جملوں سے کیا تھاکہ ’’جب بھی آتا ہوں تو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پھر مانگنے آگیا، میں مانگنے نہیں آیا، لیکن کیا کروں مجبوری ہے، آپ نے پہلے بھی ہماری مدد کی ہے آج بھی مدد کر دیں، وعدہ کرتا ہوں کہ قوم دن رات ایک کر کے آپ کا یہ پیسہ واپس کر دے گی۔‘‘ اور اسی نوع کی دیگر تقاریر اور بیانات بھی منظر عام پر آتے رہے جس میں انگریزی کی کہاوت بیان کرتے ہوئے ان کا ایک بیان ہماری غیرتِ ملّی پر کسی تازیانے سے کم نہیں تھا کہ بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا (beggars can’t be choosers)۔
کون کہتا ہے کہ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی اتحادی حکومت نے ریلیف نہیں دیا اور کسی نے قربانی نہیں دی۔ اس حکومت میں قربانی بھی دی گئی اور ریلیف بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ قربانی کا بکرا عوام بنے اور چھری ان پر ہی چلی جب کہ ریلیف حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کا مقدر بنا۔ اتحادی حکومت کی سب سے بڑی کارکردگی اپنے مقدمات ختم کرانا رہی۔ نیب قوانین میں تبدیلی سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف علی زرداری سب سے آگے رہے جب کہ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز کے ساتھ ایک طویل فہرست ہے جو اس سے مستفید ہوئی اور توشہ خانہ کے نیب ریفرنسز، میگا منی لانڈرنگ سمیت درجنوں کیسز ختم کر کے داخلِ دفتر کر دیے گئے۔ حکومت کے جاتے جاتے شریف خاندان کو بڑا ریلیف یہ بھی ملا کہ نیب عدالت میں کیس زیر سماعت ہونے کے باعث شہباز شریف، حمزہ، سلیمان اور دیگر کی جو جائیدادیں منجمد تھیں وہ ریلیز کر دی گئیں۔
حکومت پر اعتماد کا یہ عالم رہا کہ اپنے حق میں ہونے والی قانون سازی اور بھائی کے وزیراعطم ہونے کے باوجود نواز شریف دبئی اور سعودی عرب تو آتے جاتے رہے لیکن پاکستان نہ آسکے۔ پارٹی راہنماؤں سے سوال کرنے پر تاریخیں تو دی گئیں لیکن واپسی نہ ہوئی۔ حکومت کی عدلیہ اور صحافیوں سے محاذ آرائی جاری رہی تو سامنے تاریخ کی سب سے فرینڈلی اپوزیشن نے پارلیمنٹ کو مزید بے توقیر کر دیا کہ اس کو دنیا کیا اپوزیشن لیڈر مانے گی جو سال پہلے ہی اگلا الیکشن ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑنے کا اعلان کر چکا تھا۔
اس حکومت کے سوا سالہ دور میں ملک شدید معاشی بحران کا شکار رہا اور اس کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا جس کا اظہار خود وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین کرتے رہے لیکن اس عرصہ میں بھی حکومتی اراکین اور زعما نے سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک درجنوں دورے کیے اور سنا گیا کہ بعض دوروں میں خاندانوں اور دوستوں کو نوازا گیا۔ فضل الرحمان، مریم نواز، آصفہ بھٹو کوئی سرکاری عہدہ نہ رکھتے ہوئے بھی کئی سرکاری دوروں میں شامل رہے۔ اسی بدترین معاشی بحران سے دوچار ملک پر حکومت کے آخری دنوں میں الیکشن مہم چلاتے ہوئے ممبران اسمبلی کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری، فنڈز کا اجرا تک کیا گیا حد تو یہ ہے کہ جس ملک میں غریب کو ایک وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے اسی ملک کے ایوانوں میں موجود غریبوں سے ہمدردی کا ڈراما رچانے والے اراکین پر آخری روز قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا اور ان کے لیے شاہانہ انداز میں ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔
اگر پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنا دور حکومت مخالفین کو چور ڈاکو اور نہیں چھوڑوں گا کے نعرے لگاتے گزارا تو یہ حکومت بھی سوا سال گھڑی چور کا بیانیہ لے کر اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی رہی اور اسی بیانیے میں اپنے اپنے دور اقتدار کے بڑے بڑے تحائف کو چھپا لیا۔
پی ڈی ایم حکومت میں بھی بیرونِ ملک بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہماری روایت قائم رہی اور لندن کے بعد دبئی میں بھی نشتیں ہوتی رہیں جس کو اپوزیشن نے دبئی پلان کا نام دیا۔ آئین اور قانون شکنی کی بدترین مثال قائم کی۔ پنجاب اور کے پی میں الیکشن 90 دن میں نہیں ہوئے 8 ماہ ہونے کو آئے غیر آئینی طور پر دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہیں۔ عدالت کی جانب سے دو مرتبہ الیکشن کرانے کے احکامات کو بھی حکومت نے اہمیت نہ دی۔
آئندہ چند روز میں نگراں حکومت اقتدار سنبھال لے گی تاہم یہ افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ نگراں حکومت کا اقتدار پنجاب اور کے پی کی طرح طویل ہوسکتا ہے اور ان باتوں کو تقویت اس سے مل رہی ہے کہ حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل ہی نئی مردم شماری کی منظوری دی ہے جب کہ سابق وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن کرانے کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ گو کہ گزشتہ روز سینیٹ میں بروقت الیکشن کرانے کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہے لیکن سیاسی بصیرت رکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والا معاملہ ہے۔
حکومت کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کا اتحاد بھی ختم ہوگیا ہے۔ ن لیگ جو سالوں سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری، سزا اور نا اہلی کے ساتھ پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں پر غیر علانیہ پابندی سے لگتا ہے کہ اس کو کچھ زیادہ ہی لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ انتخابات (اگر ہوئے تو) اس میں ن لیگ کتنا فائدہ اٹھاتی ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہونے کے باعث پی ڈی ایم حکومت کی ساری ناکامی اسی کے کھاتے میں پڑی ہے اور عوامی غیظ وغضب کا نشانہ بھی بن سکتی ہے۔ اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی محتاط رہی اور سوا سال میں عوام سے براہ راست تعلق نہ ہونے والی وزارتیں لے کر حکومت کے مزے بھی اڑائے اور اپنے آگے کے کانٹے بھی صاف کیے۔
[ad_2]
Supply hyperlink